Thursday 24 September 2020

جب تک سفید آندھی کے جھونکے چلے نہ تھے

 جب تک سفید آندھی کے جھونکے چلے نہ تھے

اتنے گھنے درختوں سے پتے گرے نہ تھے

اظہار پر تو پہلے بھی پابندیاں نہ تھیں

لیکن بڑوں کے سامنے ہم بولتے نہ تھے

ان کے بھی اپنے خواب تھے اپنی ضرورتیں

ہمسائے کا مگر وہ گلا کاٹتے نہ تھے

پہلے بھی لوگ ملتے تھے لیکن تعلقات

انگڑائی کی طرح تو کبھی ٹوٹتے نہ تھے

پکے گھروں نے نیند بھی آنکھوں کی چھین لی

کچے گھروں میں رات کو ہم جاگتے نہ تھے

رہتے تھے داستانوں کے ماحول میں، مگر

کیا لوگ تھے کہ جھوٹ کبھی بولتے نہ تھے

اظہر وہ مکتبوں کے پڑھے معتبر تھے لوگ

بیساکھیوں پہ صرف سند کی کھڑے نہ تھے


اظہر عنایتی

No comments:

Post a Comment