مجھے تو یہ بھی فریبِ حواس لگتا ہے
وگرنہ کون اندھیروں میں ساتھ چلتا ہے
بکھر چکی جرسِ کاروانِ گل کی صدا
اب اس کے بعد تو واماندگی کا وقفہ ہے
جو سوچیے تو سبھی کارواں میں شامل ہیں
جو دیکھیے تو سفر میں ہر ایک تنہا ہے
تری صدا ہے کہ ظلمت میں روشنی کی لکیر
ترا بدن ہے کہ نغموں کا دل دھڑکتا ہے
اداسیوں کو نہ چھونے دے پھول سا پیکر
ابھی کچھ اور تجھے اہلِِ غم پہ ہنسنا ہے
مری وفا پہ بھی اے دوست اعتبار نہ کر
مجھے بھی تیری طرح سب سے پیار کرنا ہے
یہ پوچھنا ہے کہ غیروں سے کیا ملا تجھ کو
تری جفا کی شکایت تو کون کرتا ہے
چمن چمن ہے اگر گل فشاں تو کیا کیجے
ہمیں تو اپنے خرابی کو ہی پلٹنا ہے
یہ ایک چاپ جو برسوں میں سن رہا ہوں میں
کوئی تو ہے جو یہاں آ کے لوٹ جاتا ہے
اسلم انصاری
No comments:
Post a Comment