زمیں جیسے کہ آتش فشاں کو ساتھ لیے
یوں جی رہا ہوں میں دردِ نہاں کو ساتھ لیے
ہُوا شکار سیاست کا اب کے موسم بھی
بہار آئی ہے، لیکن خزاں کو ساتھ لیے
رُکو تو یوں کہ ٹھہر جائے گردشِ دوراں
چلو تو ایسے کہ سارے جہاں کو ساتھ لیے
نفس نفس ہیں اجالے ہزار کرب لیے
ہر ایک رات ہے اک داستاں کو ساتھ لیے
کِسے زمیں کے مسائل کی فکر ہو خالد
ہر اک نظر ہے یہاں آسماں کو ساتھ لیے
امان اللہ خالد
No comments:
Post a Comment