Wednesday 23 September 2020

سکون کچھ تو ملا دل کا ماجرا لکھ کر

 سکون کچھ تو ملا دل کا ماجرا لکھ کر

لفافہ پھاڑ دیا پھر تِرا پتہ لکھ کر

سمجھ میں یہ نہیں آتا خطاب کیسے کروں

حروف کاٹ دئیے میں نے بارہا لکھ کر

قلم نے ٹوکا بھی دل کی صدا نے روکا بھی

مگر جو اس نے کہا، میں نے دے دیا لکھ کر

ہجوم غم میں زباں ساتھ جب نہ دے پائی

جو حال دل کا تھا میں نے سنا دیا لکھ کر

اب اس کی باری ہے اب اختیار اس کا ہے

کہیں کا میں نہ رہا اس کو بے وفا لکھ کر

بھلا سا کوئی بھی اک نام اس کا رکھ لینا

پر اس کے نام کو آنکھوں سے چومنا لکھ کر

میں اپنی حسرتِ دل کا حساب کیسے دوں

یہ ڈھیر میں نے لگایا ذرا ذرا لکھ کر

مجھے تو اپنے لیے راستہ تراشنا ہے 

میں کیا کروں گا کسی کا لکھا ہوا لکھ کر 

ملی ہے اس کے سبب اتنی روشنی شہزاد

بجھا دئیے کئی سورج اسے دِیا لکھ کر 


شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment