Wednesday, 23 September 2020

ہوا میں زہر پھیلا ہے

 پیش قدمی


ہوا میں زہر پھیلا ہے

نہیں ہے ذائقہ اس کا

پتہ چلتا نہیں کچھ بھی

تنفس میں کوئی الجھن سی ہوتی ہے

یہ میری موت کی جانب کہیں پہلا قدم نہ ہو

گلے سے یوں صدا آتی ہے

جیسے جنگلوں میں

خشک پیڑوں میں سے ہو کر

تیز آندھی سی گزرتی ہے

بدن میرا حرارت میں کسی تنور جیسا ہے

یہ میری سانس کی نالی

یہ کس نے پہرا باندھا ہے

ابھی تو میرے موسم نے ہرا ہونا ہے

مجھ پر پھول کھلنا ہیں

بتاتے کیوں نہیں مجھ کو

برستی آگ لے کر کون سا سورج صحن میں اترا ہے

پتہ چلتا نہیں کچھ بھی

بس سانس میں الجھن سی ہوتی ہے

بدن تنور جیسا ہے

مگر یہ بھی حقیقت ہے

مجھے اپنی خفی طاقت کے بارے میں خبر ہے

میں اپنے دشمن کی سبھی چالوں سے، حیلوں سے بھی واقف ہوں

مجھے پھر کس لیے ڈرنا ہے

مجھے تو زندہ رہنا ہے

مرے دشمن نے مرنا ہے

گو ہے زہریلا تو لیکن

اسی سے دور رہنا ہے

اسی سے بچ بچا کر تو اسی پہ وار کرنا ہے

بڑی ہمت دکھانی ہے

ہوا میں زہر پھیلا ہے


شاہدہ دلاور شاہ

No comments:

Post a Comment