پیش قدمی
ہوا میں زہر پھیلا ہے
نہیں ہے ذائقہ اس کا
پتہ چلتا نہیں کچھ بھی
تنفس میں کوئی الجھن سی ہوتی ہے
یہ میری موت کی جانب کہیں پہلا قدم نہ ہو
گلے سے یوں صدا آتی ہے
جیسے جنگلوں میں
خشک پیڑوں میں سے ہو کر
تیز آندھی سی گزرتی ہے
بدن میرا حرارت میں کسی تنور جیسا ہے
یہ میری سانس کی نالی
یہ کس نے پہرا باندھا ہے
ابھی تو میرے موسم نے ہرا ہونا ہے
مجھ پر پھول کھلنا ہیں
بتاتے کیوں نہیں مجھ کو
برستی آگ لے کر کون سا سورج صحن میں اترا ہے
پتہ چلتا نہیں کچھ بھی
بس سانس میں الجھن سی ہوتی ہے
بدن تنور جیسا ہے
مگر یہ بھی حقیقت ہے
مجھے اپنی خفی طاقت کے بارے میں خبر ہے
میں اپنے دشمن کی سبھی چالوں سے، حیلوں سے بھی واقف ہوں
مجھے پھر کس لیے ڈرنا ہے
مجھے تو زندہ رہنا ہے
مرے دشمن نے مرنا ہے
گو ہے زہریلا تو لیکن
اسی سے دور رہنا ہے
اسی سے بچ بچا کر تو اسی پہ وار کرنا ہے
بڑی ہمت دکھانی ہے
ہوا میں زہر پھیلا ہے
شاہدہ دلاور شاہ
No comments:
Post a Comment