Wednesday 23 September 2020

مرے کمرے کی کھڑکی سے

دائرہ در دائرہ


مِرے کمرے کی کھڑکی سے

مجھے اک اور کھڑکی

رات اور دن دیکھتی ہے

اس کی آنکھوں کی نمی مجھ کو

کچھ ایسے نم سی رکھتی ہے

مِرے کمرے میں بارش

ہونے لگتی ہے

میں اس کی تیز دھاروں میں

بدن اپنا بھگوتی ہوں

میں اتنا انچا روتی ہوں

مِرے کمرے کی دیواریں

اٹھا کر آنکھ

مجھ سے پوچھتی ہیں

کون رویا ہے؟

میں اس کھڑکی کی جانب

ہاتھ کی انگلی اٹھاتی ہوں

مگر

اس ایک لمحے کے کسی حصے میں

کوئی مجھ سے یہ

سرگوشی میں کہتا ہے

وہاں تو آئینہ رکھا ہوا ہے

آئینوں کے پیچھے ایک دنیا ہے

جہاں کچھ سائے بستے ہیں

سماعت سے ہیں جو عاری

جہاں کچھ الجھے رستے ہیں

کہیں پر جو نہیں جاتے

مگر

مجھ کو لیے پھرتے ہیں

اک ایسے سفر میں

دائرہ در دائرہ چلتا ہے

اور رکتا نہیں


شاہدہ دلاور شاہ 

No comments:

Post a Comment