Wednesday 23 September 2020

آج مضطر ہے مری جان خدا خیر کرے

 آج مضطر ہے مِری جان خدا خیر کرے

دل میں ہے درد کا طوفان خدا خیر کرے

رات کو نیند نہیں صبح کو آرام نہیں

ان کے آنے کا ہے امکان خدا خیر کرے

وہ ملاتے ہیں نظر غیر کی صورت ہم سے

یہ تو ہے موت کا سامان خدا خیر کرے

یہ سنا ہے کہ دکھائیں گے وہ جلوہ اپنا

دل کے اب نکلیں گے ارمان خدا خیر کرے

اب مجھے دیکھ کے کترانے لگی ہے دنیا

مٹ گئی وہ مِری پہچان خدا خیر کرے

جس کی فطرت ہے جفا اور ستم ہے شیوہ

ہے وہی دل کا نگہبان خدا خیر کرے

اٹھ گئے پاؤں اسی راہ میں اب تو مِرے

جس میں نیں جی کا ہے نقصان خدا خیر کرے

میں سمجھ بیٹھی جسے اپنی محبت کا خدا

وہ فرشتہ ہے نہ انسان خدا خیر کرے

ایسی ماضی کے سمندر نے قیامت ڈھائی

دل کی بستی ہوئی ویران خدا خیر کرے


مینو بخشی

No comments:

Post a Comment