Wednesday 23 September 2020

وہ ڈرتی ہے کہیں کوئی محبت ہی نہ کر بیٹھے

 اسی باعث زمانہ ہو گیا ہے اس کو گھر بیٹھے

وہ ڈرتی ہے کہیں کوئی محبت ہی نہ کر بیٹھے

ہمارا جرم یہ ہے ہم نے کیوں انصاف چاہا تھا

ہمارا فیصلہ کرنے کئی بے داد گر بیٹھے

میسر پھر نہ ہو گا چلچلاتی دھوپ میں چلنا

یہیں کے ہو رہو گے، سائے میں اک پَل اگر بیٹھے

فضا میں گرد کے ذروں کی صورت ہم معلق ہیں 

نہ اڑنے کی تمنا کی، نہ فرشِ خاک پر بیٹھے 

اڑی ہے خاک یادوں کی امیدوں کی ارادوں کی 

یہ مٹی تھی کہ بجھتی راکھ پر ہم پاؤں دھر بیٹھے 

پلٹ کر جب بھی دیکھا خاک کی چادر نظر آئی 

نہ گردِ راہ بیٹھی ہے، نہ میرے ہمسفر بیٹھے


شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment