اسی باعث زمانہ ہو گیا ہے اس کو گھر بیٹھے
وہ ڈرتی ہے کہیں کوئی محبت ہی نہ کر بیٹھے
ہمارا جرم یہ ہے ہم نے کیوں انصاف چاہا تھا
ہمارا فیصلہ کرنے کئی بے داد گر بیٹھے
میسر پھر نہ ہو گا چلچلاتی دھوپ میں چلنا
یہیں کے ہو رہو گے، سائے میں اک پَل اگر بیٹھے
فضا میں گرد کے ذروں کی صورت ہم معلق ہیں
نہ اڑنے کی تمنا کی، نہ فرشِ خاک پر بیٹھے
اڑی ہے خاک یادوں کی امیدوں کی ارادوں کی
یہ مٹی تھی کہ بجھتی راکھ پر ہم پاؤں دھر بیٹھے
پلٹ کر جب بھی دیکھا خاک کی چادر نظر آئی
نہ گردِ راہ بیٹھی ہے، نہ میرے ہمسفر بیٹھے
شہزاد احمد
No comments:
Post a Comment