زخم مہکے نہ کوئی رنگ طبعیت لائی
زندگی مجھ کو عبث کوئے ملامت لائی
اس کو مدت سے کوئی قیس نہیں ملتا تھا
میری دہلیز پہ صحرا کو ضرورت لائی
میں سمجھتا تھا کرے گی وہ تمہاری باتیں
خلقتِ شہر کوئی اور شکایت لائی
لوگ رکھنے نہیں دیتے تھے ترے پاؤں پہ سر
بندگی عشق کے مسلک سے اجازت لائی
میرا مقصد یہاں نظارۂ مہتاب نہیں
اس کھنڈر میں مجھے تعمیر کی حسرت لائی
بے خیالی میں نکل آیا ہوں تیری جانب
کوئی پوچھے تو یہ کہتا ہوں محبت لائی
عباس تابش
No comments:
Post a Comment