Friday 25 September 2020

زخم مہکے نہ کوئی رنگ طبعیت لائی

 زخم مہکے نہ کوئی رنگ طبعیت لائی

زندگی مجھ کو عبث کوئے ملامت لائی

اس کو مدت سے کوئی قیس نہیں ملتا تھا

میری دہلیز پہ صحرا کو ضرورت لائی

میں سمجھتا تھا کرے گی وہ تمہاری باتیں

خلقتِ شہر کوئی اور شکایت لائی

لوگ رکھنے نہیں دیتے تھے ترے پاؤں پہ سر

بندگی عشق کے مسلک سے اجازت لائی

میرا مقصد یہاں نظارۂ مہتاب نہیں

اس کھنڈر میں مجھے تعمیر کی حسرت لائی

بے خیالی میں نکل آیا ہوں تیری جانب

کوئی پوچھے تو یہ کہتا ہوں محبت لائی


عباس تابش

No comments:

Post a Comment