وہ شہد سے میٹھا تھا کہ پھولوں سے حسیں تھا
تھا جو بھی، مجھے کیا، جو مقدر میں نہیں تھا
اک طنز کی تلوار تھا وہ شوخ و طرحدار
اس شاخِ ثمر بار میں اک سانپ مکیں تھا
وہ وقت بھی گزرا ہے تِرے عشق میں مجھ پر
جب تیرے مقابل میں نہ دنیا تھی نہ دِیں تھا
دل ہی نے کبھی میری کوئی بات نہ مانی
تُو میرا نہیں، اس کا مجھے پورا یقیں تھا
کچھ اگلی ملاقات کی بابت نہ ہوا طے
کچھ وہ بھی پریشاں تھا، کچھ میں بھی غمیں تھا
جو بزم کہ تھی سلکِ گہر، ٹوٹ گئی تھی
پھر کوئی کہیں، کوئی کہیں، کوئی کہیں تھا
رؤف امیر
No comments:
Post a Comment