وہ سرپھری ہوا تھی سنبھلنا پڑا مجھے
میں آخری چراغ تھا جلنا پڑا مجھے
محسوس کر رہا تھا اسے اپنے آس پاس
اپنا خیال خود ہی بدلنا پڑا مجھے
سورج نے چھپتے چھپتے اجاگر کیا تو تھا
لیکن تمام رات پگھلنا پڑا مجھے
موضوعِ گفتگو تھی مری خامشی کہیں
جو زہر پی چکا تھا، اگلنا پڑا مجھے
کچھ دور تک تو جیسے کوئی میرے ساتھ تھا
پھر اپنے ساتھ آپ ہی چلنا پڑا مجھے
امیر قزلباش
No comments:
Post a Comment