Friday, 25 September 2020

وہ سر پھری ہوا تھی سنبھلنا پڑا مجھے

 وہ سرپھری ہوا تھی سنبھلنا پڑا مجھے

میں آخری چراغ تھا جلنا پڑا مجھے

محسوس کر رہا تھا اسے اپنے آس پاس

اپنا خیال خود ہی بدلنا پڑا مجھے

سورج نے چھپتے چھپتے اجاگر کیا تو تھا

لیکن تمام رات پگھلنا پڑا مجھے

موضوعِ گفتگو تھی مری خامشی کہیں

جو زہر پی چکا تھا، اگلنا پڑا مجھے

کچھ دور تک تو جیسے کوئی میرے ساتھ تھا

پھر اپنے ساتھ آپ ہی چلنا پڑا مجھے


امیر قزلباش

No comments:

Post a Comment