رک گیا آنکھ سے بہتا ہوا دریا کیسے
غم کا طوفاں تو بہت تیز تھا، ٹھہرا کیسے
ہر گھڑی تیرے خیالوں میں گھِرا رہتا ہوں
ملنا چاہوں تو ملوں خود سے میں تنہا کیسے
مجھ سے جب ترکِ تعلق کا کیا عہد تو پھر
مڑ کے میری ہی طرف آپ نے دیکھا کیسے
مجھ کو خود پر بھی بھروسہ نہیں ہونے پاتا
لوگ کر لیتے ہیں غیروں پہ بھروسہ کیسے
دوستو! شکر کرو مجھ سے ملاقات ہوئی
یہ نہ پوچھو کہ لٹی ہے مِری دنیا کیسے
اور بھی اہلِ خِرد اہلِ جنوں تھے موجود
لٹ گئے ہم ہی تِری بزم میں تنہا کیسے؟
آنکھ جس جا پہ بھی پڑتی ہے ٹھہر جاتی ہے
لکھنا چاہوں تو لکھوں تیرا سراپا کیسے؟
زلفیں چہرے سے ہٹا لو کہ ہٹا دوں میں خود
نؔور کے ہوتے ہوئے اتنا اندھیرا کیسے؟
کرشن بہاری نور
No comments:
Post a Comment