Friday, 25 September 2020

جب تصور میں کوئی ماہ جبیں ہوتا ہے

 جب تصور میں کوئی ماہ جبیں ہوتا ہے

رات ہوتی ہے مگر دن کا یقیں ہوتا ہے

اف وہ بے داد عنایت بھی تصدق جس پر

ہائے وہ غم جو مسرت سے حسیں ہوتا ہے

ہجر کی رات فسوں کارئ ظلمت مت پوچھ

شمع جلتی ہے مگر نور نہیں ہوتا ہے

دور تک ہم نے جو دیکھا تو یہ معلوم ہوا

کہ وہ انساں کی رگِ جاں سے قریں ہوتا ہے

عشق میں معرکۂ قلب و نظر کیا کہئے

چوٹ لگتی ہے کہیں درد کہیں ہوتا ہے

ہم نے دیکھے ہیں وہ عالم بھی محبت میں حفیظ

آستاں خود جہاں مشتاق جبیں ہوتا ہے


حفیظ بنارسی

No comments:

Post a Comment