صورت گردشِ پرکار الگ رکھی ہے
وقت سے کھینچ کے رفتار الگ رکھی ہے
اپنے سائے سے الگ رکھا ہے سایہ اپنا
اپنی دیوار سے دیوار الگ رکھی ہے
اپنے کس کام کی، لے جاؤ اٹھا کر اس کو
وہ محبت کہ جو بے کار الگ رکھی ہے
دیکھ اس دستِ ندامت میں سپر ہے میری
خوں میں ڈوبی ہوئی تلوار الگ رکھی ہے
جسم پہ رکھی ہے پوشاک ملامت اپنی
سر پہ اک تہمتِ آزار الگ رکھی ہے
وہ مِرے سر کا خریدار ہے دستار کے ساتھ
ہاں مگر قیمتِ انکار الگ رکھی ہے
اپنے اشعار تو اوروں سے الگ ہیں، لیکن
ہم نے کچھ اپنی بھی گفتار الگ رکھی ہے
شاہد کمال
No comments:
Post a Comment