Friday, 25 September 2020

کچھ یقیں سا گمان سا کچھ ہے

 کچھ یقیں سا، گمان سا کچھ ہے

جو بھی ہے میری جان سا کچھ ہے

ہاتھ میں ہے مہارِ ناقۂ خاک

سر پہ اک سائبان سا کچھ ہے

فاصلے ختم ہو گئے، لیکن

پھر بھی اک درمیان سا کچھ ہے

کھل گئے اس کی نصرتوں کے علم

وہ ہوا میں نشان سا کچھ ہے

ہم جسے آسمان کہتے ہیں 

وہ کوئی آسمان سا کچھ ہے

چل کے اس کی گلی میں دیکھتے ہیں

شورِ آشفتگان سا کچھ ہے

خاک پر وہ پڑی ہے مشک کوئی

تیر بھی اور کمان سا کچھ ہے

دیکھ انداز بے زبانئ گل

اپنا طرزِ بیان سا کچھ ہے


شاہد کمال

No comments:

Post a Comment