Friday 25 September 2020

تمہارے سامنے ممکن ہے ہم برے ٹھہریں

 تمہارے سامنے ممکن ہے ہم برے ٹھہریں

کہ شہرِ سنگ میں کیسے یہ آئینے ٹھہریں

وہ گل بدن جو چلے، راستے نکھر جائیں

وہ چشمِ مست رکے اور میکدے ٹھہریں

یہ باغ عشق ہے، موسم بغیر سبز رہے

خزاں بھی طاری رہے، پیڑ بھی ہرے ٹھہریں

وہ چاہتے ہیں کہ آنسو بھی نہ رکیں، لیکن

ہماری چشمِ فسردہ میں قہقہے ٹھہریں

ہم ایسے دودھ جلے، چھاچھ سے بھی کترائیں

سو نامِ عشق سے دل میں جو وسوسے ٹھہریں

ہمارے ضبط سے پوچھو کہ ہجر کیا دکھ ہے

رگوں میں کرب بہے، دل میں حادثے ٹھہریں

جنہیں تمہاری ضرورت ہے، وہ کہاں جائیں

تمہارے دل میں اگر اب بھی وہ گلے ٹھہریں

ہوا میں رنگ اڑا کر بنائی ست رنگی

پھر اس کی موج میں تتلی کےراستےٹھہریں

پرائے لوگ ہیں باقی، ہماری دنیا میں

عجب نہیں ہے کہ طاقوں میں اژدھے ٹھہریں


وجاہت باقی

No comments:

Post a Comment