چشمِ تر یوں بھگو گئی مجھ کو
میں کہ میلا تھا، دھو گئی مجھ کو
یوں بھی عادت تھی رتجگوں کی مجھے
پھر محبت بھی ہو گئی مجھ کو
موت کس بات سے ڈراتی ہے
زندگی مار تو گئی مجھ کو
اس کو رنگینیاں مبارک ہوں
کر کے ویران جو گئی مجھ کو
میں سمندر کو حد میں رکھتا تھا
ایک بارش ڈبو گئی مجھ کو
جب ادھیڑا مجھے کسی غم نے
شاعری سی، پِرو گئی مجھ کو
میں نہ کہتا تھا کچھ بھی ممکن ہے
چھوڑ کر تو بھی تو گئی مجھ کو
دن گزرتے ہوئے ہنسا مجھ پر
رات آئی تو رو گئی مجھ کو
ساجد رحیم
No comments:
Post a Comment