مجھ سے مخلص تھا نہ واقف مِرے جذبات سے تھا
اس کا رشتہ تو فقط اپنے مفادات سے تھا
اب جو بچھڑا ہے تو کیا روئیں جدائی پہ تری
یہی اندیشہ ہمیں پہلی ملاقات سے تھا
دل کے بجھنے کا ہواؤں سے گلا کیا کرنا
یہ دِیا نزع کے عالم میں تو کل رات سے تھا
مرکزِ شہر میں رہنے پہ مصر تھی خلقت
اور میں وابستہ تِرے دل کے مضافات سے تھا
میں خرابوں کا مکیں، اور تعلق میرا
تیرے ناطے کبھی خوابوں کے محلات سے تھا
لب کشائی پہ کھلا اس کے سخن سے افلاس
کتنا آراستہ وہ اطلس و بانات سے تھا
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment