منقبت بر مولائے کائنات علی کرم اللہ وجہہ
گُل ہو گیا زمین پہ اوہام کا چراغ
تشکیک سے یقین کو حاصل ہوا فراغ
جھوما نسیمِ عقل سے نوعِ بشر کا باغ
اترا دماغ دل میں تو دل بن گیا دماغ
اوجِ خِرد پہ صبح کی سرخی عیاں ہوئی
یہ آئے تو حریمِ نظر میں اذاں ہوئی
سرمایۂ روزگار کو زریں قبا ملی
انسانیت کو دولتِ صد ارتقاء ملی
ہنستی ہوئی قدر کے گلے سے قضا ملی
آغوش میں رسول کو اپنی دعا ملی
جیسے ہی نصف نور ملا نصف نور سے
اپنے کو کردگار نے دیکھا غرور سے
منبر پہ آفتابِ تکلم عیاں ہوا
موجِ مئے غدیر لیے خم عیاں ہوا
دریائے مرحمت میں تلاطم عیاں ہوا
انصاف کے لبوں پہ تبسم عیاں ہوا
ڈالی نگاہ فخر سے دنیا نے دین پر
قرآن آسمان سے اترا زمین پر
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment