یہ غم نہ دے کہ مجھ سے بھلایا نہ جائے گا
پِھر دل کسی بھی دل سے لگایا نہ جائے گا
روشن ہوئے چراغ تو دیوار گر پڑی
اب گھر کا کوئی راز چھپایا نہ جائے گا
دیکھا اسے تو دل نے مجھے روک کر کہا
ان پتھروں سے ہاتھ ملایا نہ جائے گا
چاندی کی 'نِیو' پر جو بنا گھر ہوا تباہ
سونے کی ریت سے تو بنایا نہ جائے گا
قیصر بنے ہیں دھوپ پہ یادوں کے نقشِ پا
بارش سے بھی انہیں مٹایا نہ جائے گا
افتخار قیصر
نِیو = بنیاد
No comments:
Post a Comment