Thursday 24 September 2020

زہر دے دے نہ کوئی گھول کے پیمانے میں

 زہر دے دے نہ کوئی گھول کے پیمانے میں

اب تو جی ڈرتا ہے خود اپنے ہی میخانے میں

جامِ جم سے نگہِ توبہ شکن تک، ساقی

پوری روداد ہے ٹوٹے ہوئے پیمانے میں

سارا ماضی میری آنکھوں میں سمٹ آیا ہے

میں نے کچھ شہر بسا رکھے ہیں ویرانے میں

بے سبب کیسے بدل سکتا ہے رندوں کا مزاج

کچھ غلط لوگ چلے آئے ہیں مے خانے میں

اب پرستار نیا طرزِ پرستش سیکھیں

کچھ نئے بت بھی ابھر آئے ہیں بتخانے میں

مجھ پہ تنقید بھی ہوتی ہے تو القاب کے ساتھ

کم سے کم اتنا سلیقہ تو ہے بے گانے میں

میں نے یہ سوچ کے ان سے کبھی شکوہ نہ کیا

بات کچھ اور الجھ جاتی ہے سلجھانے میں

پیاس کانٹوں کی بجھاتا ہے لہو سے اپنے

کتنی بالغ نظری ہے تِرے دیوانے میں

اس کو کیا کہتے ہیں اقبال کسی سے پوچھو

دل نہ اب شہر میں لگتا ہے نہ ویرانے میں


اقبال عظیم​

No comments:

Post a Comment