زہر دے دے نہ کوئی گھول کے پیمانے میں
اب تو جی ڈرتا ہے خود اپنے ہی میخانے میں
جامِ جم سے نگہِ توبہ شکن تک، ساقی
پوری روداد ہے ٹوٹے ہوئے پیمانے میں
سارا ماضی میری آنکھوں میں سمٹ آیا ہے
میں نے کچھ شہر بسا رکھے ہیں ویرانے میں
بے سبب کیسے بدل سکتا ہے رندوں کا مزاج
کچھ غلط لوگ چلے آئے ہیں مے خانے میں
اب پرستار نیا طرزِ پرستش سیکھیں
کچھ نئے بت بھی ابھر آئے ہیں بتخانے میں
مجھ پہ تنقید بھی ہوتی ہے تو القاب کے ساتھ
کم سے کم اتنا سلیقہ تو ہے بے گانے میں
میں نے یہ سوچ کے ان سے کبھی شکوہ نہ کیا
بات کچھ اور الجھ جاتی ہے سلجھانے میں
پیاس کانٹوں کی بجھاتا ہے لہو سے اپنے
کتنی بالغ نظری ہے تِرے دیوانے میں
اس کو کیا کہتے ہیں اقبال کسی سے پوچھو
دل نہ اب شہر میں لگتا ہے نہ ویرانے میں
اقبال عظیم
No comments:
Post a Comment