مت سمجھو کہ ہجرت کے طلسمات میں گم ہیں
ہم لوگ وفاؤں کے تضادات میں گم ہیں
رستوں میں نہیں سات سمندر کی یہ دوری
یہ سات سمندر تو مری ذات میں گم ہیں
ہم لے کے کہاں جائیں محبت کا سوال اب
دل والے بھی اپنے ہی مفادات میں گم ہیں
کشکولِ انا کو بھی چٹختا کوئی دیکھے
سب اہلِ کرم لذتِ خیرات میں گم ہیں
الفاظ دریچے ہیں جو کھلتے ہیں دلوں میں
معنی مرے سامع کے خیالات میں گم ہیں
ظہیر احمد
No comments:
Post a Comment