Monday, 21 September 2020

آ کہ پھر آج ہم آہنگ ہوئی ہے لب جو

 آ کہ پھر آج ہم آہنگ ہوئی ہے لبِ جُو

نے کی لے، چاند کی تنویر، صبا کی خوشبو

منعقد پھر سے کروں محفلِ جمشید و قباد

دو گھڑی صدر نشینی پہ جو آمادہ ہو تُو

وقتِ کُن جو دلِ یزداں میں ہوا تھا غلطاں

میرے دل میں بھی وہی آ کے جگا دے جادو

کفر سجدے میں گرے، دِین کی نبضیں چھٹ جائیں

آج آ، دوش پہ بکھرائے ہوئے یوں گیسو

میں ہوں وہ رِند جسے دیکھ کے کہتے ہیں ملک

آفریں باد بر ایں خلوتئ جام و سبو

عقل کہتی ہے کہ کس طرح میسر ہو گا

عشق کہتا ہے کہ فردوس ہے تیرا پہلو

کیفِ مستی میں گہر بار کر ان آنکھوں کو

غمِ ہستی سے ٹپکتے نہیں جن کے آنسو

آ، پلا پھر مئے اسرارِ سکون و جنبش

اے بہ تمکیں حرمِ قدس و بہ شوخی آہو

آج یوں دل میں لطافت سے ہیں ارماں بے چین

جیسے طاعت میں بدلتے ہیں فرشتے پہلو

خاک مست، آبِ رواں تند، ہوائیں سرشار

آج اپنے پہ عناصر کو نہیں ہے قابو

آج اے نورِ نگاہِ قمر و بنتِ سحاب

کاش میرا سر شوریدہ ہو، تیرا زانو

پرسشِ چند نفس، اے مرے سرمایۂ شوق

زحمتِ چند قدم، اے مرے سروِ دلجو

آج اے جوش ترے رنگِ غزلگوئی سے

قندِ پارس کا مزا ہے بہ زبانِ اردو


جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment