Tuesday, 22 September 2020

حسینوں کے تبسم کا تقاضا اور ہی کچھ ہے

 حسینوں کے تبسم کا تقاضا اور ہی کچھ ہے

مگر کلیوں کے کھلنے کا نتیجہ اور ہی کچھ ہے

نگاہیں مشتبہ ہیں میری پاکیزہ نگاہوں پر

مِرے معصوم دل پر ان کو دھوکا اور ہی کچھ ہے

حسینوں سے محبت ہے انہی پر جان دیتا ہوں

مِرا شیوہ ہے یہ لیکن زمانا اور ہی کچھ ہے

بھلا کیا ہوش آئے گا بجھے  گی کیا لگی دل کی

یہ آنچل سے ہوا دینے کا منشا اور ہی کچھ ہے

زبان و عقل و دل تعریف سے جس کی ہیں بیگانے

اسے سجدہ جو کرتا ہے وہ بندہ اور ہی کچھ ہے

تجھے ہر شے میں دیکھا سحر نے ہر شے میں پہچانا

مگر پھر بھی ہے اک پردہ، وہ پردہ اور ہی کچھ ہے


سحر عشق آبادی

No comments:

Post a Comment