پھر سے آرائشِ ہستی کے جو ساماں ہوں گے
تیرے جلووں ہی سے آباد شبستاں ہوں گے
عشق کی منزلِ اول پہ ٹھہرنے والو
اس سے آگے بھی کئی دشت و بیاباں ہوں گے
تو جہاں جائے گی غارت گرِ ہستی بن کر
ہم بھی اب ساتھ تِرے گردشِ دوراں ہوں گے
کس قدر سخت ہے یہ ترک و طلب کی منزل
اب کبھی ان سے ملے بھی تو پشیماں ہوں گے
تیرے جلووں سے جو محروم رہے ہیں اب تک
وہی آخر تِرے جلووں کے نگہباں ہوں گے
اب تو مجبور ہیں پر حشر کا دن آنے دے
تجھ سے انصاف طلب روئے گریزاں ہوں گے
جب کبھی ہم نے کیا عشق پشیمان ہوئے
زندگی ہے تو ابھی اور پشیماں ہوں گے
کوئی بھی غم ہو غم دل کہ غم دہر حفیظ
ہم بہرحال بہ ہر رنگ غزل خواں ہوں گے
حفیظ ہوشیارپوری
No comments:
Post a Comment