مسل دیا ہے درندوں نے جن صداؤں کو
وہ چیخ ہے جو کلیجہ ہلا کے رکھ دے گی
حکومتوں سے کہو جلد احتساب کرے
یہ آگ ورنہ زمیں کو جلا کے رکھ دے گی
جب آنسوؤں کی صدا حشر بن کے اٹھے گی
یہ تخت و تاج ہوا میں اڑا کے رکھ دے گی
زمینِ دل پہ، یہ وہ تیرہ زاد بستی ہے
ہتھلیوں کے ستارے بجھا کے رکھ دے گی
ہے موجِ درد میں شدت عجیب سی اب کے
فصیلِ ضبطِ انا کو گِرا کے رکھ دے گی
شاہد کمال
No comments:
Post a Comment