Wednesday 23 September 2020

یہ شکوہ ہے کہ اس گھر میں کوئی میرے سوا کیوں ہے

 کسی نے یہ سبق تکوین کا آخر لکھا کیوں ہے

کہ جس کی ابتدا کیا، متن کیونکر، انتہا کیوں ہے

پسِ پردہ دھرا کیا ہے، یہ ہے سب کھیل پردے کا

تلاشِ قصر آئینہ نظر کا اقتضا کیوں ہے

یہ صحرا بلبلوں کا ہے یہاں ہر خول خالی ہے

خیالِ قیس ہر محمل کے پیچھے دوڑتا کیوں ہے

بتِ معنیٰ سے فارغ ہے حرم کی تو یہ صورت ہے

حرم کے آستانے پر سرِ عرفاں جھکا کیوں ہے

جہاں تک دیکھ پاتا ہوں دھوئیں کا ایک عالم ہے

بتاؤں کیا نگاہوں کو تجسس آگ کا کیوں ہے

وہ بت ہے منتظر ایمائے دستِ شوق کا میرے

نہیں تو پردۂ سنگیں میں دنیا سے چھپا کیوں ہے

یہ دل اس میں تمہیں تم تھے کبھی اب ہر تمنا کو

یہ شکوہ ہے کہ اس گھر میں کوئی میرے سوا کیوں ہے

یہ دنیا آہ یہ خاکستر بے ذوقِ سوزش ہے

شرارہ کوئی تبلیغِ تپش میں مبتلا کیوں ہے

شکارِ دام پستی ہے بالآخر حوصلہ دل کا

تو آخر بطنِ پستی سے یہ فوارہ اٹھا کیوں ہے

اگا ہے کشت وحشت ہے ہر اک آئینِ آبادی

کسی پائے جنوں کو پھر سرِ وحشت سرا کیوں ہے

یہ جو کچھ ہے نہیں کیوں ہے چناں کیوں ہے چنیں کیوں ہے

محؔب جس گھر کے مہماں ہو وہیں یہ تبصرہ کیوں ہے ​


محب عارفی​

No comments:

Post a Comment