محبت ناز ہے یہ ناز کب ہر دل سے اٹھتا ہے
یہ وہ سنگِ گراں ہے جو بڑی مشکل سے اٹھتا ہے
لگی میں عشق کی، شعلہ کوئی مشکل سے اٹھتا ہے
جلن رہتی ہے آنکھوں میں، دھواں سا دل میں اٹھتا ہے
تِری نظروں سے گر کر جب کوئی محفل سے اٹھتا ہے
بڑی دقت، بڑی زحمت، بڑی مشکل سے اٹھتا ہے
جو آ کر بیٹھتا ہے، بیٹھ کر وہ پھر نہیں اٹھتا
جو اٹھتا ہے تو بس فتنہ تِری محفل سے اٹھتا ہے
منا کر ہی تمہیں دم لیں گے، یہ طے کر لیا ہم نے
تمہاری ناخوشی کا بوجھ کس کے دل سے اٹھتا ہے
یہ عالم ہے تیرے بیمارِ الفت کی نقاہت کا
اشارے کیلئے اب ہاتھ بھی مشکل سے اٹھتا ہے
ضرورت ہے تو گردابِ بلا میں عافیت ڈھونڈو
کہ اب طوفان اکثر دامن ساحل سے اٹھتا ہے
محبت کا سفر بے انتہا آساں سہی، لیکن
جو گر پڑتا ہے رستے میں وہ پھر مشکل سے اٹھتا ہے
تِری محفل کسی کو جیتے جی اٹھنے نہیں دیتی
وہ ہے زندہ جنازہ جو تیری محفل سے اٹھتا ہے
تِرا بیمار کیا آ کر سنائے تجھ کو حال اپنا
زباں مشکل سے چلتی ہے، قدم مشکل سے اٹھتا ہے
یہ کس دیوانۂ عشق و وفا نے راہ طے کر لی
سلامی کو بگولہ گردشِ منزل سے اٹھتا ہے
تمنا تو نصیر اس بزم میں جانے کی ہے، لیکن
سنا ہے جو وہاں بیٹھے بڑی مشکل سے اٹھتا ہے
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment