Tuesday, 22 September 2020

سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا

سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا 

دریچہ کھل رہا تھا خواب میں دیوار کر ڈالا 

نشاں ہونٹوں کا لو دینے لگا ہے ذہن میں اب تو 

بالآخر میں نے اس کو مشعل رخسار کر ڈالا 

نقاہت اور بلا کا حسن اور آنکھوں کی دل گیری 

عجب بیمار تھا جس نے مجھے بیمار کر ڈالا 

مرے دل سے لپٹتی زلف بھی تو دیکھتا کوئی 

سبھی نالاں ہیں میں نے شہر کیوں مسمار کر ڈالا 

مری اترن سے اپنی ستر پوشی کر رہا ہے وہ 

مرے طرز غزل نے کیا اسے نادار کر ڈالا 

جو خائف تھے غزل میں ذکر بغداد و بخارا سے 

وہ خوش ہوں میں نے اب ذکر لب و رخسار کر ڈالا 


اظہار الحق

No comments:

Post a Comment