Tuesday 22 September 2020

یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں

 یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں

ٹکرا کے آبگینے سے پتھر ہوا ہوں میں

آنکھوں کے جنگلوں میں مجھے مت کرو تلاش

دامن پہ آنسوؤں کی طرح آ گیا ہوں میں

یوں بے رخی کے ساتھ نہ منہ پھیر کے گزر

اے صاحبِ جمال! تِرا آئینہ⌗ ہوں میں

یوں بار بار مجھ کو صدائیں نہ دیجیے

اب وہ نہیں رہا ہوں کوئی دوسرا ہوں میں

میری برائیوں پہ کسی کی نظر نہیں

سب یہ سمجھ رہے ہیں بڑا پارسا ہوں میں

وہ بے وفا سمجھتا ہے مجھ کو، اسے کہو

آنکھوں میں اس کے خواب لیے پھر رہا ہوں میں


عزم شاکری

No comments:

Post a Comment