سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا
دریچہ کھل رہا تھا خواب میں دیوار کر ڈالا
نشاں ہونٹوں کا لو دینے لگا ہے ذہن میں اب تو
بالآخر میں نے اس کو مشعل رخسار کر ڈالا
نقاہت اور بلا کا حسن اور آنکھوں کی دل گیری
عجب بیمار تھا جس نے مجھے بیمار کر ڈالا
مرے دل سے لپٹتی زلف بھی تو دیکھتا کوئی
سبھی نالاں ہیں میں نے شہر کیوں مسمار کر ڈالا
مری اترن سے اپنی ستر پوشی کر رہا ہے وہ
مرے طرز غزل نے کیا اسے نادار کر ڈالا
جو خائف تھے غزل میں ذکر بغداد و بخارا سے
وہ خوش ہوں میں نے اب ذکر لب و رخسار کر ڈالا
اظہار الحق
No comments:
Post a Comment