Thursday 24 September 2020

ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے

 ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے

اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے

اب غم زیست سے گھبرا کے کہاں جائیں گے

عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے

رات کے بعد سحر ہو گی مگر کس کے لیے

ہم ہی شاید نہ رہیں رات کے ڈھلتے ڈھلتے

روشنی کم تھی مگر اتنا اندھیرا تو نہ تھا

شمع امید بھی گل ہو گئی جلتے جلتے

آپ وعدے سے مُکر جائیں گے رفتہ رفتہ

ذہن سے بات اتر جاتی ہے ٹلتے ٹلتے

ٹوٹی دیوار کا سایہ بھی بہت ہوتا ہے

پاؤں جل جائیں اگر دھوپ میں چلتے چلتے

دن ابھی باقی ہے اقبال ذرا تیز چلو

کچھ نہ سوجھے گا تمہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے


اقبال عظیم

No comments:

Post a Comment