Friday, 25 September 2020

جو لمحہ رائگاں گزرا وہی تو کام کا تھا​

 جو لمحہ رائیگاں گزرا وہی تو کام کا تھا​

بہر نفس یہ زیاں عمرِ ناتمام کا تھا​

یہ کیا ہوا کہ بھرے آسماں کے آنگن میں ​

بچھڑ گیا جو ستارہ ہمارے نام کا تھا​

بڑھا کے اس سے رہ و رسم اب یہ سوچتے ہیں​

وہی بہت تھا جو رشتہ دعا سلام کا تھا​

ہر اک کے بس میں کہاں تھا کہ سو رہے سرِ شام​

یہ کام بھی تِرے آوارگانِ شام کا تھا​

کوئی شجر، کوئی دیوار چاہتا تھا جمال

سفر میں لوگ تھے جھگڑا مگر قیام کا تھا


جمال احسانی

No comments:

Post a Comment