وہ سبز پیڑ بھی اب سوکھنے لگا میرے یار
جہاں تھا نام تمہارا کھدا ہوا میرے یار
یہ دیکھ کر کہ وہ ترچھی نظر سے دیکھتی ہے
بدل لیا ہے نگاہوں کا زاویہ میرے یار
نجومیوں سے، ستاروں سے، رشتہ داروں سے
تمہارے بعد کسی سے نہ مل سکا میرے یار
اکھڑنے لگتا تھا سورج کا سانس تیرے بغیر
بکھرنے لگتا تھا بارش کا حوصلہ میرے یار
جس ایک غم سے میں چھپتا پھرا جوانی میں
وہ ڈھلتی عمر میں پایا ہے جا بجا میرے یار
یہاں سبھی کو غرض تھی مرے اثاثوں سے
کوئی نہیں تھا جو میرا بھی سوچتا میرے یار
ملن کے بعد بھی رہتی ہے بے قراری سی
مری سمجھ میں نہ آیا یہ ماجرا میرے یار
احمد حماد
No comments:
Post a Comment