Friday, 25 September 2020

سلسلہ رنگوں کا خوشبو کا سفر اچھا لگا

 سلسلہ رنگوں کا خوشبو کا سفر اچھا لگا

مدتوں کے بعد جب لوٹے تو گھر اچھا لگا

جانے کیسا درد تھا جس کی اذیت میں مجھے

سوچ میں ڈوبا ہوا بوڑھا شجر اچھا لگا

ہر کوئی جب محو تھا رنگینئ ماحول میں

آس کے پنچھی کو یادوں کا نگر اچھا لگا

جو مرے احساس کے آنگن میں اتری تھی کبھی

اس حسیں رُت کا تصور عمر بھر اچھا لگا

رابطہ بھی اس نے رکھا لا تعلق بھی رہا

اک ہنر مند کا انوکھا یہ ہنر اچھا لگا

بے یقینی اور یقیں کے درمیاں ٹھہرا ہوا

دھند میں لپٹا ہوا اک ہم سفر اچھا لگا

قید کر لوں گا ان آنکھوں میں تمہارے واسطے

دشتِ غربت میں کوئی منظر اگر اچھا لگا


یوسف خالد

No comments:

Post a Comment