سلسلہ رنگوں کا خوشبو کا سفر اچھا لگا
مدتوں کے بعد جب لوٹے تو گھر اچھا لگا
جانے کیسا درد تھا جس کی اذیت میں مجھے
سوچ میں ڈوبا ہوا بوڑھا شجر اچھا لگا
ہر کوئی جب محو تھا رنگینئ ماحول میں
آس کے پنچھی کو یادوں کا نگر اچھا لگا
جو مرے احساس کے آنگن میں اتری تھی کبھی
اس حسیں رُت کا تصور عمر بھر اچھا لگا
رابطہ بھی اس نے رکھا لا تعلق بھی رہا
اک ہنر مند کا انوکھا یہ ہنر اچھا لگا
بے یقینی اور یقیں کے درمیاں ٹھہرا ہوا
دھند میں لپٹا ہوا اک ہم سفر اچھا لگا
قید کر لوں گا ان آنکھوں میں تمہارے واسطے
دشتِ غربت میں کوئی منظر اگر اچھا لگا
یوسف خالد
No comments:
Post a Comment