Friday, 25 September 2020

کبھی آنسو کبھی خوشبو کبھی نغمہ بن کر

 کبھی آنسو کبھی خوشبو کبھی نغمہ بن کر

ہم سے ہر شام ملی ہے تیرا چہرہ بن کر

چاند نکلا ہے تیری آنکھ کے آنسو کی طرح

پھول مہکے ہیں تیری زلف کا سایہ بن کر

میری جاگی ہوئی راتوں کو اسی کی ہے تلاش

سو رہا ہے میری آنکھوں میں جو سپنا بن کر

دل کے کاغذ پر اترتا ہے تو شعروں کی طرح

میرے ہونٹوں پہ مچلتا ہے تو نغمہ بن کر

رات بھی آئے تو بجھتی نہیں چہرے کی چمک

روح میں پھیل گیا ہے جو اجالا بن کر

میرا کیا حال ہے یہ آ کہ کبھی دیکھ تو لے

جی رہا ہوں تیرا بھولا ہوا وعدہ بن کر

دھوپ میں کھو گیا وہ ہاتھ چھڑا کر راشد

گھر سے تو ساتھ چلا تھا میرا سایہ بن کر


ممتاز راشد

No comments:

Post a Comment