کبھی آنسو کبھی خوشبو کبھی نغمہ بن کر
ہم سے ہر شام ملی ہے تیرا چہرہ بن کر
چاند نکلا ہے تیری آنکھ کے آنسو کی طرح
پھول مہکے ہیں تیری زلف کا سایہ بن کر
میری جاگی ہوئی راتوں کو اسی کی ہے تلاش
سو رہا ہے میری آنکھوں میں جو سپنا بن کر
دل کے کاغذ پر اترتا ہے تو شعروں کی طرح
میرے ہونٹوں پہ مچلتا ہے تو نغمہ بن کر
رات بھی آئے تو بجھتی نہیں چہرے کی چمک
روح میں پھیل گیا ہے جو اجالا بن کر
میرا کیا حال ہے یہ آ کہ کبھی دیکھ تو لے
جی رہا ہوں تیرا بھولا ہوا وعدہ بن کر
دھوپ میں کھو گیا وہ ہاتھ چھڑا کر راشد
گھر سے تو ساتھ چلا تھا میرا سایہ بن کر
ممتاز راشد
No comments:
Post a Comment