Thursday, 25 January 2018

میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں

میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں 
مگر اسے تو خبر ہے کہ کچھ نہیں ہوں میں 
عجیب لوگ ہیں میری تلاش میں مجھ کو 
وہاں پہ ڈھونڈ رہے ہیں جہاں نہیں ہوں میں 
میں آئینوں سے تو مایوس لوٹ آیا تھا 
مگر کسی نے بتایا بہت حسیں ہوں میں 
وہ ذرے ذرے میں موجود ہے مگر میں بھی 
کہیں کہیں ہوں کہاں ہوں کہیں نہیں ہوں میں 
وہ اک کتاب جو منسوب تیرے نام سے ہے 
اسی کتاب کے اندر کہیں کہیں ہوں میں 
ستارو! آؤ، مِری راہ میں بکھر جاؤ 
یہ میرا حکم ہے حالانکہ کچھ نہیں ہوں میں 
یہیں حسین بھی گزرے، یہیں یزید بھی تھا 
ہزار رنگ میں ڈوبی ہوئی زمیں ہوں میں 
یہ بوڑھی قبریں تمہیں کچھ نہیں بتائیں گی 
مجھے تلاش کرو دوستو! یہیں ہوں میں 

راحت اندوری

No comments:

Post a Comment