Tuesday 2 January 2018

اس کی انا کے بت کو بڑا کر کے دیکھتے

اس کی انا کے بت کو بڑا کر کے دیکھتے 
مٹی کے آدمی کو خدا کر کے دیکھتے 
مایوسیوں میں یوں ہی تمنا اجاڑ دی 
اٹھے ہوئے تھے ہاتھ دعا کر کے دیکھتے 
دشمن کی چاپ سن کے نہ خاموش بیٹھتے 
جو فرض تم پہ تھا وہ ادا کر کے دیکھتے 
بے مہریٔ زمانہ کا شکوہ فضول ہے 
نکلے تھے گھر سے گر تو صدا کر کے دیکھتے 
اس کے بغیر زندگی کتنی فضول ہے 
تصویر اس کی دل سے جدا کر کے دیکھتے 
گردن جھکا کے چلنے میں کتنا وقار ہے 
اپنی انا سے خود کو رہا کر کے دیکھتے 
تازہ ہوا میں اڑنے کی خواہش تھی گر سدیدؔ 
تم اپنا جسم وقفِ فضا کر کے دیکھتے

انور سدید

No comments:

Post a Comment