اس کی انا کے بت کو بڑا کر کے دیکھتے
مٹی کے آدمی کو خدا کر کے دیکھتے
مایوسیوں میں یوں ہی تمنا اجاڑ دی
اٹھے ہوئے تھے ہاتھ دعا کر کے دیکھتے
دشمن کی چاپ سن کے نہ خاموش بیٹھتے
بے مہریٔ زمانہ کا شکوہ فضول ہے
نکلے تھے گھر سے گر تو صدا کر کے دیکھتے
اس کے بغیر زندگی کتنی فضول ہے
تصویر اس کی دل سے جدا کر کے دیکھتے
گردن جھکا کے چلنے میں کتنا وقار ہے
اپنی انا سے خود کو رہا کر کے دیکھتے
تازہ ہوا میں اڑنے کی خواہش تھی گر سدیدؔ
تم اپنا جسم وقفِ فضا کر کے دیکھتے
انور سدید
No comments:
Post a Comment