Sunday 21 January 2018

سہمے سہمے چلتے پھرتے لاشے جیسے لوگ

سہمے سہمے چلتے پھرتے لاشے جیسے لوگ 
وقت سے پہلے مر جاتے ہیں کتنے ایسے لوگ 
سر پر چڑھ کر بول رہے ہیں پودے جیسے لوگ 
پیڑ بنے خاموش کھڑے ہیں کیسے کیسے لوگ 
چڑھتا سورج دیکھ کے خوش ہیں کون نہیں سمجھائے 
تپتی دھوپ میں کمہلائیں گے غنچے جیسے لوگ 
شب کے راج دلارو! سوچو اپنا بھی انجام 
شب کا کیا ہے کاٹ ہی دیں گے جیسے تیسے لوگ 
غم کا درماں سوچنے بیٹھے تھے جو رات گئے 
فکر فردا لے کر اٹھے بزم مۓ سے لوگ 
محسنؔ اور بھی نکھرے گا ان شعروں کا مفہوم 
اپنے آپ کو پہچانیں گے جیسے جیسے لوگ

محسن بھوپالی

1 comment:

  1. محترم بہت خوب کلام پیش کیا ہے

    ReplyDelete