سہمے سہمے چلتے پھرتے لاشے جیسے لوگ
وقت سے پہلے مر جاتے ہیں کتنے ایسے لوگ
سر پر چڑھ کر بول رہے ہیں پودے جیسے لوگ
پیڑ بنے خاموش کھڑے ہیں کیسے کیسے لوگ
چڑھتا سورج دیکھ کے خوش ہیں کون نہیں سمجھائے
شب کے راج دلارو! سوچو اپنا بھی انجام
شب کا کیا ہے کاٹ ہی دیں گے جیسے تیسے لوگ
غم کا درماں سوچنے بیٹھے تھے جو رات گئے
فکر فردا لے کر اٹھے بزم مۓ سے لوگ
محسنؔ اور بھی نکھرے گا ان شعروں کا مفہوم
اپنے آپ کو پہچانیں گے جیسے جیسے لوگ
محسن بھوپالی
محترم بہت خوب کلام پیش کیا ہے
ReplyDelete