Saturday 27 January 2018

جھک کے چلتا ہوں کہ قد اس کے برابر نہ لگے

جھک کے چلتا ہوں کہ قد اس کے برابر نہ لگے
دوسرا یہ کہ اسے راہ میں ٹھوکر نہ لگے
یہ تِرے ساتھ تعلق کا بڑا فائدہ ہے
آدمی ہو بھی تو اوقات سے باہر نہ لگے
نیم تاریک سا ماحول ہے درکار مجھے
ایسا ماحول جہاں آنکھ لگے، ڈر نہ لگے
ماؤں نے چومنے ہوتے ہیں بریدہ سَر بھی
ان سے کہنا کہ کوئی زخم جبیں پر نہ لگے
یہ طلب گار نگاہوں کے تقاضے ہر سُو
کوئی تو ایسی جگہ ہو جو مجھے گھر نہ لگے
یہ جو آئینہ ہے، دیکھوں تو خلا دِکھتا ہے
اس جگہ کچھ بھی نہ لگواؤں تو بہتر نہ لگے
تم نے چھوڑا تو کسی اور سے ٹکراؤں گا میں
کیسے ممکن ہے کہ اندھے کا کہیں سَر نہ لگے

عمیر نجمی

No comments:

Post a Comment