معمولات
روز رات کو اٹھ کر
خواہشوں کے گارے سے
ایک گھر بناتا ہوں
اور ٹوٹ جاتا ہوں
ایک کام کرنا ہے
ایک شعر کہنا ہے
چاند جب ابھرنا ہے
وصل کی کوئی ساعت
ہجر کے مقابل ہو
چاند جب بھی آئے گا
معجزہ دکھائے گا
رات کے اندھیرے میں
گم سا ہونے لگتا ہوں
اب تو کوئی سازش ہو
جگنوؤں کی بارش ہو
ہجر کی کوئی ساعت
رات کے دریچے پر
اس طرح اترتی ہے
شام جیسے ڈھلتی ہے
جس سڑک کے چہرے پر
زرد پھول بکھرے ہیں
اس سڑک پہ چلتے ہیں
راستہ بدلتے ہیں
ندیم بھابھہ
No comments:
Post a Comment