Monday 30 December 2019

کہ میری زنجیر دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے

وہ ڈھل رہا ہے تو یہ بھی رنگت بدل رہی ہے
زمین سورج کی انگلیوں سے پھسل رہی ہے
جو مجھ کو زندہ جلا رہے ہیں وہ بے خبر ہیں
کہ میری زنجیر دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے
میں قتل تو ہو گیا تمہاری گلی میں، لیکن
مِرے لہو سے تمہاری دیوار گَل رہی ہے
جلنے پاتے تھے جس کے چولھے بھی ہر سویرے
سنا ہے کل رات سے وہ بستی بھی جل رہی ہے
میں جانتا ہوں کہ خامشی میں ہی مصلحت ہے
مگر یہی مصلحت میرے دل کو کَھل رہی ہے
کبھی تو انساں زندگی کی کرے گا عزت
یہ ایک امید آج بھی دل میں پل رہی ہے

جاوید اختر

No comments:

Post a Comment