وہ ڈھل رہا ہے تو یہ بھی رنگت بدل رہی ہے
زمین سورج کی انگلیوں سے پھسل رہی ہے
جو مجھ کو زندہ جلا رہے ہیں وہ بے خبر ہیں
کہ میری زنجیر دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے
میں قتل تو ہو گیا تمہاری گلی میں، لیکن
جلنے پاتے تھے جس کے چولھے بھی ہر سویرے
سنا ہے کل رات سے وہ بستی بھی جل رہی ہے
میں جانتا ہوں کہ خامشی میں ہی مصلحت ہے
مگر یہی مصلحت میرے دل کو کَھل رہی ہے
کبھی تو انساں زندگی کی کرے گا عزت
یہ ایک امید آج بھی دل میں پل رہی ہے
جاوید اختر
No comments:
Post a Comment