(اقتباس از جرگہ (خود ساختہ قوانین
تمہیں ایک فوقیت حاصل تھی دنیائے تمدن میں
تمہاری امتیازی شان تھی اقوامِ عالم میں
جہاں میں ایک نشاطِ ثانیہ کے پیش رو تم تھے
کئی اقدار کے بانی تھے تہذیبوں کے آنگن میں
جب انسانوں کے اوپر ظلم کا خفقان طاری تھا
تو اہلِ عالمِ اسلام کا فیضان جاری تھا
سنا ہے گلشنِ اسلام بھی اب وہ نہیں جو تھا
نسیمِ تازہ کا پیغام بھی اب وہ نہیں جو تھا
سنا ہے بادِ صرصر نے چمن کو گھیر رکھا ہے
شعاعِ نور کا اکرام بھی اب وہ نہیں جو تھا
سنا ہے اس چمن میں پھول اب کم کم ہی کھلتے ہیں
اگر کھلتے بھی ہیں تو رنگ میں مدھم کھلتے ہیں
سنا ہے تم نے ایک عورت کی شادی میں خلل ڈالا
سنا ہے تم نے اس کے حقِ شادی کو کچل ڈالا
اسے اصرار تھا شادی کرے گی اپنی مرضی سے
سنا ہے اس سبب سے تم نے اسے قتل کر ڈالا
سنا ہے اور اسے کہتے ہو تم یہ قتلِ غیرت ہے
تمہاری مجرمانہ بے حسی پر، سخت حیرت ہے
سنا ہے اس کی خاطر تم نے ایک جرگہ بلایا تھا
اسے اس خونِ ناحق کے لیے تم نے بٹھایا تھا
یہ کس مذہب کا جرگہ تھا ذرا ہم کو بتاؤ تم
وہ ظالم کون تھا، یہ فیصلہ جس نے سنایا تھا
بتاؤ اس کی کیا بنیاد ہے، یہ واقعہ کیا ہے؟
خدا کا کون سا قانون ہے جس میں یہ لکھا ہے
فضا اعظمی
No comments:
Post a Comment