ہے صبح دکھ اور شام دکھ ہے، تمام دُکھ ہے
نصیبِ انساں مدام دکھ ہے، تمام دکھ ہے
میں قطرہ قطرہ ہی پی رہا ہوں کہ جی رہا ہوں
یہ زندگانی کا جام دکھ ہے، تمام دکھ ہے
نہ سن سکو گے مِری کہانی، مِری زبانی
میں اپنے ہونے پہ کب سکھی ہوں، بہت دکھی ہوں
نہ خاص دکھ ہے، نہ عام دکھ ہے، تمام دکھ ہے
جو سچ کہوں تو یہ کارِ الفت، ہے کارِ وحشت
شروع دکھ، اختتام دکھ ہے، تمام دکھ ہے
اسی لیے چپ ہوں میں مسلسل، یہاں ہر اک پَل
کہ انتہاۓ کلام دکھ ہے، تمام دکھ ہے
ہم اہلِ دل پر یہ عقدہ آخر کھلا ہے ساحر
یہاں پسِ ہر نظام دکھ ہے، تمام دکھ ہے
پرویز ساحر
No comments:
Post a Comment