Monday, 6 February 2017

کب لطف زبانی کچھ اس غنچہ دہن کا تھا

کب لطف زبانی کچھ اس غنچہ دہن کا تھا
برسوں ملے پر ہم سے صرفہ ہی سخن کا تھا
اسباب مہیا تھے سب مرنے ہی کے لیکن
اب تک نہ موئے ہم جو اندیشہ کفن کا تھا
بلبل کو مؤا پایا کل پھولوں کی دکاں پر
اس مرغ کے بھی جی میں کیا شوق چمن کا تھا
مرغانِ چمن سارے تسبیح میں تھے گل کی
ہر چند کہ ہر اک کا ڈھلکا ہوا منکا تھا
سب سطح ہے پانی کا آئینے کا سا تختہ
دریا میں کہیں شاید عکس اس کے بدن کا تھا
خوگر نہیں ہم یوں ہی کچھ ریختہ کہنے سے
معشوق جو اپنا تھا باشندہ دکن کا تھا
رہ میؔر غریبانہ جاتا تھا چلا روتا
ہر گام گِلہ لب پر یارانِ وطن کا تھا

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment