سحرِ تہذیبِ نَو تھا، کہ تھی بے حسی، نوحہ خواں چپ رہے
ایک بوڑھا بلکتے ہوۓ مر گیا، اور جواں چپ رہے
جان پاۓ نہ کچھ تیرے آگے فراوانئ شوق میں
ہم کہاں بے سبب بولتے ہی گئے اور کہاں چپ رہے
سسکیوں پر کہاں تک بھروسہ کیے جاؤ گے شاعرو؟
اب نئی نسل کی بے زبانی پہ آنسو بہاتے ہو کیوں؟
جس جگہ بولنا چاہئے تھا تمہیں، تم وہاں چپ رہے
بولیے! ورنہ اس کارگاہِ مکافات میں دوستو
داستانیں دکھائیں گی وہ وہ جگہیں ہم جہاں چپ رہے
کوئی آسیب تھا یا بغاوت نمو پا رہی تھی کوئی
بوڑھے کہتے رہے "بولیے بولیے" پر جواں چپ رہے
احمد حماد
No comments:
Post a Comment