Tuesday 7 February 2017

افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے

افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے
خود روئے دوسروں کو رلاتے چلے گئے
بھرتے رہے الم میں فسونِ طرب کا رنگ
ان تلخیوں میں زہر ملاتے چلے گئے
اپنے نیازِ شوق پہ تھا زندگی کو ناز
ہم زندگی کے ناز اٹھاتے چلے گئے
ہر اپنی داستاں کو کہا داستانِ غیر
یوں بھی کسی کا راز چھپاتے چلے گئے
میں جتنا ان کی یاد بھلاتا چلا گیا
وہ اور بھی قریب تر آتے چلے گئے

صوفی تبسم

No comments:

Post a Comment