Tuesday 14 February 2017

آغاز مقرر تو ہے انجام مقرر

آغاز مقرر تو ہے انجام مقرر
سودا نہیں ہوتا ہے یہاں دام مقرر
آتی ہیں نئے رعب میں مغرور یہ صبحیں 
ہر صبح کی ہوتی ہے مگر شام مقرر
انساں کو فخر کیا کہ نئی منزلیں کھوجے
ہر راہ مقرر ہے تو ہے گام مقرر
پتا بھی نہیں ہلتا بِنا اس کی اجازت
کیسے نہ کئے جائیں گے پھر کام مقرر
اذن اس کا بھلائی ہے برائی ہے مِرے ہاتھ
کیا ہو گا جو کہتے ہیں کہ ہے جام مقرر
قسمت میں جو لکھا ہے وہی ملتا ہے لیکن
بڑھ جاتے دعا سے ہیں یہ انعام مقرر
جو عقل سے کر پائے نہ تو فیصلے ابرکؔ
قرآں میں سبھی ملتے وہ احکام مقرر

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment