زمیں پر آسماں رکھا ہُوا ہے
مجھے بھی درمیاں رکھا ہوا ہے
چھپا کر اپنے راز لاکھوں
مجھے رازداں رکھا ہوا ہے
بِنا دیکھے اسے تا عمر چاہیں
میں خود کو بھی نظر آتا نہیں
مجھے آخر کہاں رکھا ہوا ہے
چلے آؤ کہ گھر کے راستے کو
مثالِ کہکشاں رکھا ہوا ہے
روانی دل کے دریا میں کہاں
محبت نے رواں رکھا ہوا ہے
کرامتؔ یہ کرامت ہے غزل کی
مجھے اس نے جواں رکھا ہوا ہے
کرامت بخاری
No comments:
Post a Comment