قصیدہ گنگ ہے اور ریختوں کی چھٹی ہے
تو آگئی ہے تو اب تذکروں کی چھٹی ہے
ابھی تو عشقِ حقیقی کے حق میں تھے سارے
کہ حسن پہنچا ہے اور فلسفوں کی چھٹی ہے
ہماری بستی میں چاہت بچھائی جا رہی ہے
یہ میری آنکھ جو اس کو حسیں دکھائے گی
تو اس کے کمرے کے سب آئینوں کی چھٹی ہے
ہتھیلیوں سے پلانے کی رسم جاری کی
کہ میکدے میں چھوئے برتنوں کی چھٹی ہے
شراب، شاعری، آوارہ گردی اور احباب
تُو ہے تو تیری سبھی سوتنوں کی چھٹی ہے
احمد عطاءاللہ
No comments:
Post a Comment