Tuesday, 21 February 2017

ڈوب جائیں گے تو پانی سے نکل آئیں گے

ڈوب جائیں گے تو پانی سے نکل آئیں گے
گمشدہ لوگ کہانی سے نکل آئیں گے
اس کی مٹھی میں گرفتار ہیں ہم ریت کی شکل
رکتے رکتے بھی روانی سے نکل آئیں گے
ہم کہ تعمیر اسی شک میں دوبارہ نہ ہوئے
رائیگاں صورتِ ثانی سے نکل آئیں گے
ہم کو کھینچے گی شاخ کی خوشبو جس وقت
سانپ بھی رات کی رانی سے نکل آئیں گے
پھول سرہانے رہے اس کے اگر سوتے ہوئے
خواب خوشبو کے معانی سے نکل آئیں گے
ماند پڑ جانے دو اک بار ذرا اس کا جمال
آئینے زعمِ جوانی سے نکل آئیں گے

اظہر فراغ

No comments:

Post a Comment