ڈوب جائیں گے تو پانی سے نکل آئیں گے
گمشدہ لوگ کہانی سے نکل آئیں گے
اس کی مٹھی میں گرفتار ہیں ہم ریت کی شکل
رکتے رکتے بھی روانی سے نکل آئیں گے
ہم کہ تعمیر اسی شک میں دوبارہ نہ ہوئے
ہم کو کھینچے گی شاخ کی خوشبو جس وقت
سانپ بھی رات کی رانی سے نکل آئیں گے
پھول سرہانے رہے اس کے اگر سوتے ہوئے
خواب خوشبو کے معانی سے نکل آئیں گے
ماند پڑ جانے دو اک بار ذرا اس کا جمال
آئینے زعمِ جوانی سے نکل آئیں گے
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment