Friday 12 October 2012

بہار نام کی ہے کام کی بہار نہیں

بہار نام کی ہے، کام کی بہار نہیں
کہ دستِ شوق کسی کے گلے کا ہار نہیں
رہے گی یاد اُنہیں بھی، مُجھے بھی، وصل کی رات
کہ اُن سا شوخ نہیں، مُجھ سا بے قرار نہیں
سحر بھی ہوتی ہے چلتے ہیں اے اجل ہم بھی
اب اُن کے آنے کا ہم کو بھی اِنتظار نہیں
مُجھے یہ ڈر ہے نہ ہو اور طُول محشر کو
مِرے گناہوں کا مالک مِرے شُمار نہیں
جناب شیخ نے مے پی تو مُنہ بنا کے کہا
مزا بھی تلخ ہے، کچھ بُو بھی خُوشگوار نہیں
اذیّت اس دلِ مردہ کو کیوں ہے پہلو میں
عذابِ گور نہیں، قبر کا فشار نہیں
یہی چراغِ لحد تھے، یہی تھے قبر کے پُھول
اب اُن کے نقشِ قدم بھی سرِ مزار نہیں
حِنا لگا کے پہنچتے ہیں گُلرُخوں میں ریاضؔ
کچھ اُن کی ریشِ مبارک کا اعتبار نہیں

ریاض خیر آبادی

No comments:

Post a Comment